Amreen khan

Add To collaction

تیرے عشق میں -- باب - ۸

باب - ۸

صنم اپنی دھن میں کال سنتے چلتی ہوئ سامنے سے آ رہی تھی ۔۔۔۔۔ بیٹا بس مل گئی تھی ، پریشانی تو نہیں ہوئی؟ شمسہ بیگم کی فکر سے بھرپور آواز دوسری جانب سے سنائی دی ،

ہاں جی ماما جانی مل گئی انفیکیٹ میں پہنچ بھی گئی ہوں۔ جی امی ضرور کھا لونگی پلیز آپ پریشان نا ہوے ٹھیک ہے۔۔ اوکے اللہ حافظ

صنم شمسہ بیگم کی نصیحت سنے میں مگن اپنی دھن میں چلی آ رہی تھی کہ اچانک کسی بھاری چیز سے سر لگتا محسوس ہوا

**

شاہمیر کو دیکھ کر کچھ لڑکیاں گروپ کی ٹولی بنا کر شاہمیر کی تعریف کے قصیدے پڑھنے میں مگن تھی

ٹھیک ہے آ رہا ہوں تم بیٹھاو ان کو میٹنگ روم میں۔۔ شاہمیر موبائل پر عباس سے بات کرتا ہوا بولا

آہ۔۔۔ صنم کی چینخ اتنی تیز تھی کی آتے جاتے لوگوں کی نظر اس پر پڑ رہی تھی۔۔۔۔ شاہمیر کی نظروں کے سامنے وہی بھوری آنکھیں تھی۔۔۔ جو وہ لمحے کے ہزارویں حصے میں پہچان سکتا تھا۔۔۔

صنم نے نظریں آٹھا کر دیکھی وہی غرور کا بھرا بندہ سامنے تھا۔۔۔۔۔ شاہمیر صنم کو بازوں سے پکڑے سیدھا کھڑا کرتے ابھی بھی پکڑے ہوئے تھا۔۔

صنم ایک جھٹکے سے خود کو چھڑاتی پیچھے کی اور ہٹی۔۔۔

تم ؟؟ تم یہاں!!!!۔ یہاں کیا کر رہے ہو اور اندھے ہو نظر نہیں آتا سامنے سے کوئی چل کے آریا ہے۔۔ مسٹر ایک تو ہماری گاڑی پر قبضہ کر لیا تم نے۔۔۔ اور اب اس کالج میں بھی پیچھا کرتے آگئے ہوں، آج کے بعد اگر تم مجھے اس کالج میں دوبارہ دیکھے تو چھوڑو گی نہیں۔۔۔ صنم کے منہ میں جو جو الفاظ آئے بول دئے۔۔

اس کو یہ بھی اندازہ نا ہو سکا مقابل کون ہے حد میں آپ رہے میڈم ورنہ میں ساری حدودیں پار کر دونگا۔۔۔ شاہمیر غصے میں صنم کا بازوں ایک بار پھر سے دبوچتے ہوئے بولا۔۔۔

فائزہ اور کنزا کی نظر سامنے صنم پر پڑی۔ جو اس وقت سخت غصے میں لگ رہی تھی۔۔وہ دونوں دوڑتی ہوئی صنم کے قریب آئی۔۔۔۔ چلو یہاں سے کنزا صنم کا ہاتھ پکڑتے ہوے بولی۔۔ چپ رہو تم دونوں !!

ایسے لوگوں سے نبٹنا مجھے اچھی طرح آتا ہے۔۔ صنم شاہمیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولی۔

اگر تم مجھے اس کالج میں کبھی نظر آے تو میں تمہارا قتل کر دونگی۔۔۔

شاہمیر کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔۔ مجھے جوکس بلکل پسند نہیں ہاں لیکن فرسٹ ٹائم مجھے کوئی جوک بہت پسند آیا۔۔

شاہمیر نے ہنستے ہوئے کہا اور واپس مڑتے کار کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھتے ہوئے کار اسٹارٹ کی د

ابھی لوگوں کا ہجوم ویسا کا ویسا ہی تھا۔

شاہمیر نے کار آگے بڑھا کر ”صنم“ کے پاس روکی ، شیشہ نیچے کرتے ھوے طنزیہ مسکرا کر نظریں صنم

پر مرکوز کی صنم کار کے اتنے قریب تھی کی شاہمیر کی آواز بخوبی سن سکتی تھی۔

” ۔ نظروں سے قتل کرنے والے کا ہر قتل قبول"

شاہمیر نے کہتے ہویے سن گلاس آنکھوں پر لگائیں اور شیشہ اوپر کرتے ہوئے تیز رفتاری سے آگے بڑھ گیا۔

"" پاس رہ کر بھی ھمیشہ وہ بہت دور ملا،

اس کا انداز تغافل تھا خداؤں جیسا۔“

لالارخ بہت نروس تھی کیونکہ کی آج کالج کا فرسٹ ڈے تھا۔۔ ہر کسی سے انجان نا ہی کوئی فرینڈ۔ وہ کلاس میں بیٹھی آتے جاتے لوگوں کا ہجوم دیکھ رہی تھی۔۔۔۔لالارخ کی خوبصورتی سب کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔۔ جو اس کے لیے بہت گھبراہٹ سبب بن رہا تھا۔۔ وہ خوبصورتی میں اپنے بھائی شاہمیر شاہ کی کار بن کاپی تھی پنک ہونٹ ، گورے بھرے بھرے گال ہلکی سنہری آنکھیں اگر کوئی ایک بار دیکھتا تو دوبارہ دیکھنے پر مجبور ہو جاتا،،،،،


عباس کا اس وقت غصے سے برا حال تھا عباس آخر کار تھک ہار کر آفس خود چلا گیا۔ اور شاہمیر کا انتظار کرنے لگا،،،،، شاہمیر شاہ کی بلیک چمچماتی ہوئی فورٹونر گاڑی آٹھ منز لا عمارت کے سامنے آکر رکی۔۔۔

اس سفید سنگ مرمر سے بنی بلڈنگ جس کا نام "

Bright Construction of SA

ہے،،،، اس کی شہرت بیرونی ممالک تک پھیلی ہوئی تھی۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر شاہمیر باہر آیا۔۔۔ شاہمیر کو اپنا ہر کام زیادہ تر خود کرنے کی عادت تھی۔ڈرایور نوکر وغیرہ کم رکھتا۔۔

شاہمیر نیوی بلیو کلر میں پینٹ کورٹ کے ساتھ وائٹ شرٹ زیب تن کئے ایک ہاتھ میں وریسٹ واچ جب کہ دوسرے بازو سے اپنے کوٹ کو لٹکانے لمبے لمبے ڈگ بھرتا آفس میں داخل ہوا۔۔۔

گڈ مارنگ سر " سبھی اسٹاف میمبرز ادب سے کھڑے ہو کر سلام کر رہے تھے جس کا جواب اثبات میں سر ہلا کر دیتا ۔۔۔ور کر اپنے باس کی سخت طبیعت سے اچھے سے واقف تھے۔۔۔

اپنے کیبن میں داخل ہوتے ہی سامنے عباس کو غصہ سے سرخ چہرا لئے اپنی سیٹ پر بیٹھے دیکھ کر اس کے تعاقب میں آکر شاہمیر نے اپنا بلیک کورٹ چیر پر ٹکاتا ہوا بولا۔۔۔

عباس تو۔۔ تو کب آیا یار ؟؟؟

شاہمیر نے مسکراہٹ دبا کر بات سمبھالنی چاہی۔۔۔

کون میں ؟؟؟

عباس شہادت کی انگلی اپنی طرف مرکوز کرتے ہوے بولا۔۔۔

ہاں ظاہر ہے تو ہی۔

کیوں یہاں کوئی اور بھی ہے کیا ؟؟

عباس خاموش رہا

یار ایم سوری میں لالی کو یونیورسٹی ڈراپ کرنے گیا تھا، آج اسکا فرسٹ ڈے تھا ناں،، پھر وہاں ایک

پر اہلم میں پھنس گیا تھا۔۔

شاہمیر معذرت خواہ لہجے میں بولا۔۔۔۔

اوہ اچھا ٹھیک ہے مگر ۔ یار شاہمیر مجھے بتا تو دیتا یار تو ایک کال تو کر دیتا نہ یار۔۔۔۔۔ میں کال کی وہ بھی تمھاری کٹ ہو رہی تھی ابھی تمھیں اپنا نہ آنے کا بتانا تھا مگر کال کٹ جناب کی

عباس لالا رخ کا نام سنتے ہی نرم پڑا

یار بتایا تو ہے پرابلم میں پھنس گیا تھا۔۔ ایک بد تمیز لڑکی سے ٹکر ہو گئی تھی اور آپنے کیوں تشریف آوری نہیں مانی تھی۔۔ شاہمیر نے ایک بار پھر سے اپنی صفائی پیش کی۔۔۔

یہ ڈیلر فایلز بھی دینی تھی تجھے۔۔ آج میری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے میں آفس آنے کے موڈ میں نہیں تھا۔۔عباس نے ناراضگی سے کہا۔

میں جوس یا کھانے کو کچھ منگواتا ہوں۔۔پھر ٹھنڈا ہو گا تو۔۔

شاہمیر کال کرتا پیون کو دو جوس لانے کے لیے کہا۔ " اور ایک بار پھر سے عباس کی طرف متوجہ ہوا

لڑکی کونسی سے ٹکر ہوئی تھی ؟؟

عباس کا موڈ اب تھوڑا بہتر ہو گیا تھا۔۔ اس لیے اب اسے اتنا اہم سوال اسے یاد آیا تھا۔۔ پتا نہیں یہ تو نہیں جانتا!۔ شاہمیر ابھی اس بد تمیز لڑکی کے بارے میں کچھ بولتا۔۔ باہر سے دستک کی آواز آئی۔۔۔

میں کم ان۔۔ اندر سے اجازت آئی۔

پیون ٹرے میں چائے کا دو کپ لیے داخل ہوا۔۔

پیون کو آتا دیکھ ان دونوں کے بیچ مکمل خاموشی چھا چکی تھی۔۔۔۔

کیا شاہمیر عباس کو صنم کی بدتمیزی کے بارے میں بتاےگا؟؟

اگر آپ لوگو کو میری ناول پسند آ رہی ہو تو پلز سارے باب کو لایک کرے۔

اگلا باب میں بھت جلد پیش کرونگی تب تک کہ لے اللہ حافظ۔

   6
0 Comments